Monday, August 03, 2020

بریانی کا سفر ایران سے برصغیر تک


بریانی کا سفر ایران سے برصغیر تک

اس میں کوئی شک وشبہہ نہیں کہ بریانی ایران سے آئی ہے۔ بریانی نام اصل میں فارسی لفظ ’برنج بريان‘ سے نکلا ہے
،تصویر کا کیپشن

اس میں کوئی شک وشبہہ نہیں کہ بریانی ایران سے آئی ہے۔ بریانی نام اصل میں فارسی لفظ ’برنج بريان‘ سے نکلا ہے

اپنی خاص خوشبو اور ذا‏ئقے کے لیے معروف بریانی برصغیر کے خاص پکوانوں میں سے ایک ہے جو مختلف علاقوں میں بہت شوق سے کھائی جاتی ہے۔

بھارتی مؤرخ اور کھانے کے ماہر پشپیش پنت مانتے میں کہ انڈیا میں بریانی کو نوابی کھانے کا درجہ حاصل ہے۔ اس کی خوشبو بے مثال ہے اور بریانی اپنے آپ میں ایک مکمل کھانا ہے۔

400 برس قدیم انڈيا کا شہر حیدر آباد صرف اپنے چار مینار کے لیے ہی نہیں بلکہ حیدر آبادی بریانی کے لیے بھی کافی مشہور ہے۔

بریانی اب ایک مقامی پکوان ہے لیکن اس کے باوجود لوگ پوچھتے ہیں کہ ’یہ کہاں سے ہندوستان آئی اور کب آئی؟‘

دھیمی آنچ پر کافی دیر تک مصالحے میں لپیٹے ہوئے گوشت کو اس کے اپنے ہی رس میں پکنے کے لیے رکھا جاتا ہے۔ اس میں چاول کی تہہ ہوتی ہیں اور خوشبودار مسالے بھی ہوتے ہیں
،تصویر کا کیپشن

دھیمی آنچ پر کافی دیر تک مصالحے میں لپیٹے ہوئے گوشت کو اس کے اپنے ہی رس میں پکنے کے لیے رکھا جاتا ہے۔ اس میں چاول کی تہہ ہوتی ہیں اور خوشبودار مسالے بھی ہوتے ہیں

کچھ اہل علم کا کہنا ہے کہ اس کا جنم ہندوستان میں ہوا۔ ان کا دعوی ہے کہ وسطی ایشیا کے پلاؤ کو یہاں کے لوگوں نے بریانی کی شکل دی۔ لیکن اس پر یقین کرنا ذرا مشکل امر ہے۔

پلاؤ اور بریانی دو مختلف چیزیں ہیں۔ ان کا ذائقہ بھی جدا جدا ہے۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ بریانی ایران سے آئی ہے۔

بریانی نام اصل میں فارسی لفظ ’برنج بريان‘ سے نکلا ہے۔ اس کا مطلب ہے بھنے ہوئے چاول۔

ایران میں بریانی کو دیگ یعنی دم کیاجاتا ہے یعنی اسے دھیمی آنچ پر پکایا جاتا ہے۔

400 برس قدیم انڈيا کا شہر حیدر آباد صرف اپنے چارمینار کے لیے ہی نہیں بلکہ حیدر آبادی بریانی کے لیے بھی کافی مشہور ہے
،تصویر کا کیپشن

400 برس قدیم انڈيا کا شہر حیدر آباد صرف اپنے چارمینار کے لیے ہی نہیں بلکہ حیدر آبادی بریانی کے لیے بھی کافی مشہور ہے

دھیمی آنچ پر کافی دیر تک مصالحے میں لپیٹے ہوئے گوشت کو اس کے اپنے ہی رس میں پکنے کے لیے رکھا جاتا ہے۔ اس میں چاول کی تہہ ہوتی ہیں اور خوشبودار مسالے بھی ہوتے ہیں۔

بھارت میں اسلامی کھانوں کی ماہر سلمیٰ حسین بتاتی ہیں کہ دور حاضر کے ایران میں سڑکوں پر فروخت ہونے والی بریانی میں اب چاول کا استعمال نہیں ہوتا ہے۔ اب اس کی جگہ پر گوشت کے ٹکڑوں کو رومالي روٹی میں لپیٹ کر پکایا جانے لگا ہے۔

لیکن یہ ڈش دراصل ہندوستان میں پروان چڑھی جہاں اس کی رنگ برنگی اور متنوع تاریخ ہے۔

بریانی کی ڈش دراصل ہندوستان میں پروان چڑھی جہاں اس کی رنگ برنگی اور متنوع تاریخ ہے
،تصویر کا کیپشن

بریانی کی ڈش دراصل ہندوستان میں پروان چڑھی جہاں اس کی رنگ برنگی اور متنوع تاریخ ہے

اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ بریانی پہلی بار ہندوستان میں مغلوں کے ساتھ آئی۔ زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ یہ زائرین، فوجی خاندانوں اور بعض رہنماؤں کے ساتھ جنوبی ہندوستان آئی۔ بعد میں یہ ڈش جن مختلف مقامات پر پہنچی اسی مناسبت سے مقامی ذائقے اس میں مربوط ہوتے گئے۔

کیرالہ کو ہی لے لیجیے، یہاں مالابار یا موپلا بریانی ملتی ہے۔ کئی بار تو اس میں گوشت یا چکن کی جگہ مچھلی یا جھینگوں کا استعمال ہوتا ہے۔ یہاں مصالحے تیز ہوتے ہیں۔ لیکن اس میں پڑنے والے مواد سے حیدرآبادی خوشبو ضرور آتی ہے۔

انڈین ریاست مغربی بنگال میں ملنے والی بریانی، بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں ملنے والی بریانی کے ذائقے سے ملتی جلتی ہے۔ یہ بھی بہت مقبول ہے۔

یہ خیال غلط نہیں ہوگا کہ کولکاتہ شہر میں بریانی سمندر کے راستے سے آئی جہاں کبھی نوابوں کی حکومت ہوا کرتی تھی
،تصویر کا کیپشن

یہ خیال غلط نہیں ہوگا کہ کولکاتہ شہر میں بریانی سمندر کے راستے سے آئی جہاں کبھی نوابوں کی حکومت ہوا کرتی تھی

یہ خیال غلط نہیں ہوگا کہ کولکاتہ شہر میں بریانی سمندر کے راستے سے آئی جہاں کبھی نوابوں کی حکومت ہوا کرتی تھی۔

وہیں بھوپال میں بریانی شاید دراني افغانوں کے ساتھ آئی، جو کبھی احمد شاہ ابدالی کی فوج کا حصہ رہے تھے۔ بھوپال کی بریانی کافی دم دار ہوتی ہے۔ اس کی انوکھی خوشبو بہت پر کشش ہوتی ہے۔

اس کے علاوہ آج کل مرادآبادی بریانی اچانک انڈین دارالحکومت دہلی میں کافی فروخت ہونے لگی ہے۔

راجستھانی بریانی کی سب سے بہترین مثال دیگ ہے۔ یہ اجمیر میں خواجہ غریب نواز کی درگاہ کی زیارت کرنے والوں کے لیے خاص طور پر تیار کی جاتی ہے۔

بھوپال میں بریانی شاید دراني افغانوں کے ساتھ آئی، جو کبھی احمد شاہ ابدالی کی فوج کا حصہ رہے تھے۔ بھوپال کی بریانی کافی دم دار ہوتی ہے۔ اس کی انوکھی خوشبو بہت پر کشش ہوتی ہے
،تصویر کا کیپشن

بھوپال میں بریانی شاید دراني افغانوں کے ساتھ آئی، جو کبھی احمد شاہ ابدالی کی فوج کا حصہ رہے تھے۔ بھوپال کی بریانی کافی دم دار ہوتی ہے۔ اس کی انوکھی خوشبو بہت پر کشش ہوتی ہے

لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ انڈيا میں لوگ اب بھی بریانی کے حقیقی ذائقے سے بے خبر ہیں۔ زیادہ تر جگہوں پر ملنے والی بریانی کو صرف ’کڑھائی بریانی‘ ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔

یہاں لمبے چاول تو ہوتے ہیں اور زرد رنگ بھی ہو سکتا ہے، لیکن حقیقی بریانی سے یہ بلکل مختلف ہے۔

بڑے ہوٹلوں یا اچھے کھانے کے ریستوران میں بھی اسے روایتی طریقے سے نہیں پکایا جاتا ہے۔

ہم کتنی آسانی سے بھول جاتے ہیں کہ ایران ہمارے ملک کے کتنے قریب ہے اور صرف فارسی زبان ہی دونوں ممالک کی مشترکہ وراثت نہیں ہے۔

https://www.bbc.com/urdu/regional/2016/07/160725_india_biryani_food_iran_link_sz

سیور فوڈز: 18 کرسیوں سے شروع ہونے والے راولپنڈی کے معروف ریستوران کی کہانی

سیور فوڈز: 18 کرسیوں سے شروع ہونے والے راولپنڈی کے معروف ریستوران کی کہانی

  • عمیر سلیمی
  • بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
savour pulao

’انگریزی میں بزنس کہتے ہیں، اُردو میں کاروبار۔ مگر پنجابی میں اسے ’کروبار‘ کہتے ہیں۔ کروبار کرنا ہے تو سمجھ لینا چاہیے کہ اب کاروبار کے لیے آپ کو گھر سے باہر رہنا پڑے گا۔‘

حاجی محمد نعیم کو شاید زیادہ لوگ نہیں جانتے۔ لیکن ان کا پلاؤ کباب کا کاروبار پاکستان کے جڑواں شہروں میں بہت مقبول ہے۔ سنہ 1988 میں یہ کاروبار ایک چھوٹی سی دکان میں 18 کرسیوں کے ساتھ ’سیور‘ کے نام سے شروع کیا گیا تھا۔

حاجی محمد نعیم کا تعلق صوبہ پنجاب کے ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کی تحصیل گوجرہ کے ایک زمیندار مگر مذہبی گھرانے سے ہے۔ وہ میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد کاروبار سے منسلک ہو گئے تھے۔

یہ بھی پڑھیے

حاجی نعیم کے والد محمد امین وٹرنری ڈاکٹر ہیں۔ وہ تین بیٹوں میں سب سے بڑے ہیں۔

انھیں کاروبار کا شوق تھا تو والد صاحب نے چاول کا کاروبار کرنے کا مشورہ دیا۔ خاندان کے بڑوں نے ریستوران کے شعبے میں جانے کی تجویز دی۔

بس پھر طے ہو گیا کہ چونکہ چاول پاکستان سمیت جنوبی ایشیا کی من پسند غذاؤں میں سے ایک ہے، اس لیے کاروبار ہو گا اور ریستوران کے ذریعے چاول کی کوئی ڈش بیچی جائے گی۔

حاجی نعیم کے مطابق ’ہمارا خیال تھا کہ اچھا اور سستا کھانا لوگوں کو فراہم کیا جائے۔ اب ہمارا سارا خاندان اس شعبے سے منسلک ہو چکا ہے۔‘

savour pulao

ریستوران کا نام ’سیور‘ کیسے پڑا؟

پروفیسر راجہ ارشد احمد راولپنڈی کے گورنمنٹ کالج اصغر مال میں اُردو پڑھایا کرتے تھے۔ وہ اس ریستوران کے قیام کے پہلے سے حاجی نعیم کے رفیق ہیں۔

وہ ان افراد میں سے تھے جن سے ریستوران کا نام تجویز کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔

پروفیسر ارشد نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جو بات پہلے سے ذہن میں تھی، وہ یہ کہ نام ایسا ہونا چاہیے کہ اس کو ادا کرنے میں دقت نہ ہو۔ لوگوں کو یہ نام یاد رہے۔ چاہے پڑھے لکھے ہوں یا نہیں، ان کے لیے یہ نام آسان ہونا چاہیے۔‘

انھوں نے یہ باتیں مدنظر رکھتے ہوئے ’سیور‘ نام تجویز کیا اور یہ بھی بتا دیا کہ انھیں یہی نام پسند آیا ہے۔

کیمرج ڈکشنری کے مطابق سیور کے معنی کھانے سے لطف اندوز ہونے کے ہیں۔

پہلا ریستوران: 18 کرسیاں، آٹھ ملازم

بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ سیور ایک ریڑھی سے شروع ہوا جو کہ درست نہیں۔

سنہ 1988 میں گورڈن کالج کے قریب سیور کے پہلے ریستوران کی بنیاد رکھی گئی۔ حاجی نعیم کے مطابق ’تقریباً دو لاکھ روپے سے کالج روڈ پر چھوٹے سے ہال می آٹھ ملازمین کے ساتھ کام شروع کیا۔‘

’یہ بہت چھوٹی جگہ تھی۔ اس وقت کل 18 کرسیاں تھیں۔۔۔ لوگ سمجھتے ہیں سب راتوں راتوں ہو گیا۔ ایسا نہیں۔‘

اس وقت شامی کباب اور چکن سمیت پلاؤ کی پلیٹ 20 روپے کی ہوا کرتی تھی، اب یہ ریٹ 235 روپے ہے۔

’کاروبار میں بہت مشکلات آتی ہیں۔ بزنس چھوٹا تھا، روزانہ کئی مرتبہ دل ڈوبتا تھا۔ پھر کئی مرتبہ دل میں امید جاگتی تھی کہ یہ کاروبار آگے جائے گا۔‘

’طویل عرصے تک چاول، شامی کباب، چکن اور دیگر اجزائے ترکیبی پر کام ہوتا رہا۔ آخر کار خاندان کے تمام افراد ایک ذائقے پر متفق ہو گئے۔ وہی ذائقہ عوام میں مقبول ہوا۔‘

حاجی نعیم نے معیار کو بہتر کرنے اور عمدہ چاول کے حصول کے لیے سنہ 1999 میں گوجرانوالہ کے مقام پر سیور ملز کا آغاز کیا۔ ان کے مطابق ’یہ چاول سیور فوڈز کا بنیادی اور اہم جُزو ہے۔‘

سنہ 2000 میں باغ سرداراں، سنہ 2002 میں میلوڈی فوڈ پارک اسلام آباد، سنہ 2005 میں بلیو ایریا اسلام آباد اور سنہ 2005 میں راولپنڈی کرکٹ سٹیڈیم میں نئی برانچز کا اضافہ کیا گیا۔

سیور اب تک لاہور میں اپنی دو برانچز کھول چکا ہے اور ان کے بقول لاہور میں کڑے مقابلے کے باوجود پسند کیا جا رہا ہے۔

savour pulao

’پلاؤ اب سیور کے نام سے جانا جاتا ہے‘

پروفیسر ارشد کا دعویٰ ہے کہ سیور کا نام اس قدر مقبول ہو چکا ہے کہ بعض گھروں میں پلاؤ کباب کی اس ڈش کو سیور کے نام سے ہی جانا جاتا ہے جبکہ لوگ اکثر دوسرے ریستورانوں میں جا کر بھی ’سیور‘ کہہ کر پلاؤ کا آرڈر دیتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ پاکستان سے باہر برطانیہ اور متحدہ عرب امارات میں یوں تو سیور کی کوئی برانچ نہیں ہے لیکن کئی ملکوں میں سیور کے نام سے پلاؤ کباب بیچا جا رہا ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ وہی راولپنڈی کا مشہور سیور ہے۔

ملک میں سیور کی آٹھ برانچیں ہیں لیکن ملک سے باہر ایک بھی نہیں۔ تاہم کمپنی کی جانب سے بین الاقوامی سطح تک پھیلنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

پروفیسر ارشد کے مطابق کباب کو چٹ پٹا بنانے کا تجربہ انھی کے گھر کیا گیا تھا۔ وہ کہتے ہیں ’جب آدمی کباب کھائے اور منھ سے ’سِی‘ کی آواز نہ آئے تو وہ کباب نہیں۔

ان کے بقول یہی ذائقہ پیدا کرنے میں ’ایک مدت صرف ہوئی۔‘

سیور کے پلاؤ کی طرح حاجی نعیم بھی تیکھے مزاج کے نہیں۔ وہ ہمیشہ سے اس بات کے قائل رہے ہیں کہ سیور کے کھانوں میں تیز نمک مرچ نہیں ہونی چاہیے جو کہ بازار میں فروخت ہونے والے عام پکوانوں کے برعکس ہے۔

لیکن پاکستان جیسے ملک میں جہاں لوگ نمک مرچ کو ہی ذائقے کا معیار سمجھتے ہیں، وہاں حاجی نعیم کے مطابق ان کے پلاؤ میں متناسب مصالحے اس لیے استعمال کیے جاتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس سے لطف اندوز ہو سکیں۔

اسی طرح صبح سے رات نان سٹاپ کھلی رہنے والی سیور فوڈز کی دکانیں ان کے گاہکوں کے لیے ایک سستا اور ’ٹکاؤ‘ آپشن ہوتی ہیں۔

savour pulao

کاروبار کو کامیاب کیسے بنایا جائے؟

حاجی نعیم اپنا کاروبار کرنے کے خواہشمند افراد پر زور دیتے ہیں کہ وہ کاروبار کرنا چاہتے ہیں تو گھر سے باہر نکلنے کے لیے تیار رہیں۔

’اگر وہ تیار ہیں تو پھر ٹھیک ہے۔ اگر گھر سے باہر نہیں رہنا تو پھر کاروبار یا بزنس شروع کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔‘

حاجی صاحب کے لیے سیور چاول اس دانے کا نام ہے جس کا نام سنتے ہی منھ میں پانی بھر جاتا ہے اور پھر ’رج کر کھانے کا دل چاہتا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ کاروباری شخص کے لیے آنکھیں اور کان کھلے رکھنا بہت ضروری ہے۔ ’اگر بزنس کرنا ہے تو سوتے میں بھی آنکھیں اور کان کھلے رکھنے پڑیں گے۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ میں کاروبار بھی کروں اور مزے بھی، یہ دونوں باتیں آپس میں نہیں مل سکتیں۔‘

ان کے مطابق کاروبار کی کامیابی محنت پر منحصر ہے۔

لیکن حاجی صاحب اپنے بزنس کے فلسفے میں ایک بات پر قائم ہیں۔ ’آدمی ایک وقت میں کئی کئی بزنس شروع کرتا ہے۔ ایک ابھی چلا نہیں، دوسرا شروع کر لیا۔ دوسرا چلا نہیں تیسرا شروع کر لیا۔ لہٰذا یہ کاروبار کے اصولوں کے بالکل خلاف ہے۔‘

حاجی نعیم کے مطابق ان کا مقابلہ کھانے پینے کے مقامی کاروبار سے نہیں بلکہ ملٹی نیشنل کمپنیوں سے ہے۔ ’سیور فوڈز نے خود کو ان کے نعم البدل کے طور پر ثابت کیا ہے۔‘

ایسے نوجوان جو اپنا کاروبار شروع کرنا چاہتے ہیں ان کے لیے ان کا مشورہ یہ ہے کہ ’کم پیسوں سے کاروبار شروع کریں مگر قرض نہ لیں۔۔۔ آغاز میں کاروبار کے پیسوں سے اپنے اخراجات پورے نہ کریں بلکہ اسی کاروبار میں سرمایہ کاری کریں۔‘

وہ اس اصول پر یقین رکھتے ہیں کہ ’جتنی چادر ہو اتنے پاؤں پھیلائیں۔‘

’اشتہارات کے بجائے گاہکوں نے مشہور کیا‘

ابتدا سے اب تک سیور کے ساتھ منسلک ایک ملازم خالد محمود کا کہنا تھا کہ ’پہلے نعیم صاحب نے خود کام سیکھا۔ وہ خود بھی شیف ہیں، پھر انھوں نے بھائیوں اور ملازمین کو سکھایا۔‘

’کافی جگہوں پر لوگ ہماری ترکیب استعمال کرتے ہیں۔ ہمارے پُرانے ملازمین ہی پلاؤ کباب کا اپنا کاروبار شروع کر لیتے ہیں۔‘

پروفیسر ارشد نے بتایا کہ کمپنی نے سیور نام کی 100 سے زیادہ دکانیں بند کروائی ہیں کیونکہ یہ ان کا رجسٹرڈ نام ہے اور ریستوران کے اس نام کے جملہ حقوق صرف ان کے پاس ہیں۔

’لیکن اس کے باوجود کئی جگہوں پر لوگ ہماری ترکیب نقل کرتے ہیں اور پاکستان کے علاوہ دبئی اور مانچسٹر میں بھی سیور کے نام سے اس پلاؤ کی فروخت جاری ہے۔‘

savour pulao

’ہماری تمام برانچوں میں ملا کر روزانہ 10 ہزار لوگ سیور کھاتے ہیں۔ ہر برانچ پر چاولوں کی قریب 100 یا اس سے کم زیادہ دیگیں بنائی جاتی ہیں۔‘

سیور کے اتنے اشتہار نہیں اور اس کی مقبولیت کا دار و مدار ’ورڈ آف ماؤتھ‘ ہے یعنی ایک گاہک اپنے حلقہ احباب میں دوسرے لوگوں کو اس بارے میں بتاتا ہے تاکہ وہ بھی اس کا مزہ چکھیں۔

کورونا وائرس کی عالمی وبا کے دوران سیور کا کاروبار بھی متاثر ہوا ہے۔ سمارٹ لاک ڈاون کی وجہ سے لوگوں ریستوران میں بیٹھ کر کھانا نہیں کھا سکتے اور صرف ٹیک آوے یا آن لائن ڈیلیوری کے ذریعے کھانا منگوایا جا سکتا ہے۔

اس وقت بلیو ایریا کی برانچ میں زیادہ لوگوں کی آمد ہوتی ہے کیونکہ وہاں آس پاس کافی دفاتر موجود ہیں جہاں کے ملازمین سیور سے دوپہر یا شام کا کھانا پسند کرتے ہیں۔

سیور سے جڑے ماضی کے تنازعات

لیکن ہر کامیاب کی طرح سیور سے متعلق بھی تنازعات سامنے آ چکے ہیں۔

سنہ 2015 میں اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ نے سیور کی بلیو ایریا برانچ کو ’غیر معیاری کھانے کی اشیا کے استعمال‘ اور ’صفائی کے نامکمل انتظامات‘ کی بنا پر کچھ عرصے کے لیے سیل کر دیا تھا۔

لیکن ریستوران کے مینیجر ارشاد احمد نے روزنامہ ڈان کو بتایا تھا کہ ریستوران ’بغیر کسی وجہ کے‘ سیل کیا گیا۔ اخبار کے مطابق سیور کے ملازمین نے ریستوران کے باہر ایک مظاہرہ کیا تھا۔ جب یہاں پولیس اہلکار آئے تو انھیں سیور پلاؤ کی پیشکش کی گئی۔

تاہم پولیس اہلکاروں نے یہ پیشکش قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

ایک پولیس اہلکار نے ڈان کو بتایا تھا کہ ’ہم یہاں کھانا کھایا کرتے تھے۔ لیکن کچن کی تصاویر دیکھنے کے بعد ہم سیور کی پیشکش قبول نہ کر سکے۔‘

سیور کی انتظامیہ ان الزامات کو مسترد کرتی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ وہ معیاری اشیا استعمال کرتے ہیں اور صفائی کو ترجیح دیتے ہیں۔

اگست سنہ 2019 مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق وزارت ماحولیاتی تبدیلی کے اہلکاروں نے پلاسٹک بیگز پر پابندی کے احکامات کا جائزہ لینے کے لیے بلیو ایریا میں سیور کی برانچ کا دورہ کیا تھا۔

یہاں سیور حکام اور اہلکاروں کے درمیان تلخ کلامی کی ویڈیوز سامنے آئی تھیں۔

سوشل میڈیا پر بعض صارفین نے دعویٰ کیا تھا کہ ریستوران کے اندر پلاسٹک بیگز استعمال کیے جا رہے تھے اور کچھ ملازمین نے میڈیا کے نمائندوں اور وزارت کے اہلکاروں سے ’بدتمیزی‘ کی تھی۔

Twitter پوسٹ نظرانداز کریں, 1

Twitter پوسٹ کا اختتام, 1

اس موقع پر اسلام آباد کے ڈی سی حمزہ شفقات نے ٹوئٹر پر بتایا تھا کہ واقعے کے خلاف ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے اور ملوث افراد کو گرفتار کیا جا رہا ہے۔

لیکن ان تنازعات کے باوجود، دھرنے ہوں یا دفاتر میں لنچ بریک، جڑواں شہروں میں کئی لوگ اب بھی سیور پلاؤ کباب کے شوقین ہیں۔

https://www.bbc.com/urdu/pakistan-53464481