Thursday, August 20, 2020

کھانے کی قدر چین سے سیکھیے

 

کھانے کی قدر چین سے سیکھیے

کھانے کی قدر چین سے سیکھیے

   

دنیا بھر سے بھوک کا خاتمہ اقوام متحدہ کے 2030 کے پائیدار ترقیاتی اہداف میں شامل ایک اہم ہدف ہےلیکن اب بھی عالمی سطح پر آبادی کا ایک بڑا حصہ بھوک یا پھر غذائی قلت کا شکار ہے۔اقوام متحدہ کے مطابق دنیا بھر میں دو ارب سے زائد لوگ ایسے ہیں جنہیں محفوظ ،غذائیت بخش اور وافر خوراک دستیاب نہیں ہے۔ماہرین کے مطابق دنیا کی آبادی 2050 تک تقریباً دس ارب ہو جائے گی اور ایسے میں خوراک کی کمی ایک بڑامسئلہ ہو سکتی ہے۔ اس وقت دنیا میں تقریباً ساٹھ کروڑ نوے لاکھ سے زائد  افراد کو خوراک کی کمی کا سامنا ہے جبکہ اس تعداد میں گزشتہ برس 2019  کی نسبت ایک کروڑ کا اضافہ ہوا ہے۔ کووڈ۔19  سے جہاں تمام ممالک کی معیشتیں بری طرح متاثر ہوئی ہیں وہاں غربت اور بے روزگاری میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ماہرین نے یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ عالمگیر وبا کے باعث غذائی قلت کے شکار افراد کی تعداد  میں تراسی لاکھ سے تیرہ کروڑ تک اضافہ ہو سکتا ہے ۔یہ امر قابل زکر ہے کہ ناقص غذائیت سے جڑے تمام عوامل جس میں غذائی قلت ،موٹاپا وغیرہ شامل ہیں ، ان سے عالمی معیشت کو پہنچنے والے سالانہ نقصان کی مجموعی مالیت تقریباً ساڑھے تین ٹریلین ڈالرز ہے۔ 

ان اعداد و شمار کے بعد اب رخ کرتے ہیں چین کا جو دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے ۔زرعی مصنوعات کی پیداوار کے لحاظ سے بھی چین کو کئی اعتبار سے سبقت حاصل ہے بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ چین خوراک میں خودکفیل ہے تو بے جا نہ ہو گا کیونکہ گزشتہ برس چین میں اناج کی مجموعی پیداوار 660 ملین میٹرک ٹن تک پہنچ چکی ہے جس میں سال 2010 کی نسبت بیس فیصد تک اضافہ ہو چکا ہے۔لیکن خوراک میں خودکفالت کے باوجود چینی صدر شی جن پھنگ نے حالیہ دنوں ہدایات جاری کیں کہ ملک بھر میں کھانے کے ضیاع کو روکا جائے اور کفایت شعاری کو فروغ دیا جائے۔انہوں نے کھانے کے ضیاع کو  افسوسناک اور  پریشان کن قرار دیا۔صدر شی نے واضح کیا کہ اگرچہ رواں برس ملک میں فصلوں کی بہترین پیداوار ہوئی ہے مگر پھر بھی یہ لازم ہے کہ خوراک کے تحفظ سے وابستہ بحران سے آگاہ رہا جائے کیونکہ کووڈ۔19 نے سب کے لیے خطرے کی گھنٹی بجائی ہے۔یہ بات اہم ہے کہ چینی صدر نے کھانے کے ضیاع کو روکنے کے لیے قانون سازی کی مضبوطی اور نگرانی پر زور دیا اور ایک ایسے دیرپا لائحہ عمل کی تشکیل کی ہدایت کی جس سے کھانے کے ضیاع کو روکا جا سکے۔اس ضمن میں خوارک کے تحفظ کے لیے عوام میں شعور بیدار کرنا، ،کفایت شعاری کو فروغ دینا اور ایک ایسا کلچر متعارف کروانا جس میں لوگ کھانے کے ضیاع کو باعث شرمندگی اور  کھانے کے تحفظ میں فخر محسوس کریں ،کو اہمیت حاصل رہے گی۔

ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ چینی صدر نے  کھانے کے ضیاع کو روکنے کی ہدایت کی ہو ، اس سے قبل کئی مواقعوں پر اُن کی جانب سے خوراک کے تحفظ پر زور دیا گیا ہے۔2013 میں انہوں نے چینی سماج پر زور دیا کہ کھانے ضائع کرنے کی عادات کی حوصلہ شکنی کی جائے۔چینی شہریوں نے بھی اس حوالے سے اپنی ذمہ داری نبھائی اور باقاعدہ ایک مہم "اپنی پلیٹ صاف کریں" شروع کی گئی جسے عوام میں بہت مقبولیت ملی۔ریستورانوں نے بھی کھانے کے آرڈرز میں اس بات کو لازمی بنایا کہ صارفین آغاز میں کھانے کی نصف مقدار آرڈر کریں گے تاکہ کھانا ضائع نہ ہو۔اعداد و شمار کے مطابق چین میں سالانہ سترہ سے اٹھارہ ملین ٹن کھانا ضائع کر دیا جاتا ہے جبکہ بڑے شہروں میں تو یہ مقدار تیس سے پچاس ملین ٹن سالانہ ہے۔سال 2015 میں کیے جانے والے ایک سروے میں یہ بات سامنے آئی کہ چین میں ضائع کردہ کھانوں میں سبزیاں ،چاول ،نوڈلز اور گوشت شامل ہیں۔ہر صارف ایک کھانے میں 93 گرام کھانا ضائع کرتا ہے جبکہ اسکول کیفے ٹیریاز اور بڑے ریستورانوں میں نسبتاً زیادہ کھانا ضائع ہوتا ہے۔

No comments:

Post a Comment