Saturday, February 17, 2018

17 Feb Rice Market Analysis in Pakistan

17/3/18 updated fresh prices as follows ,    Paddy C1121 ,2250
1121 sella @ 4200-4300 color sort
1121 steam rough 18% broken  3800-3850 ,
1121 steam ready to export 4950-5000
Pk 386 , non basmati Sharbati type @ 2350-2380
Super old 3900
Super new 3400-3450
Market is slow

دھان کی براہ راست کاشت


دھان کی براہ راست کاشت


تحریر: مریم نصیر


پاکستان میں چاول گندم کے بعد دوسری بڑی فصل ہے، جبکہ پاکستان سالانہ ۶۴ لاکھ ٹن چاول کی پیداوار کے لحاظ سے دنیا کا دسواں بڑا ملک ہے۔ پانی زراعت کا سب سے اہم عنصر ہے اور پاکستان میں چاول کی کاشت پر آنے والی بڑی لاگت پانی کی ہے جو کسانوں پر سب سے بڑا بوجھ ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ رب کائنات نے چاول کو ایک خاص صلاحیت دی ہے کہ یہ کھڑے پانی میں بھی اگ سکتا ہے، لیکن پانی کا کھڑا رہنا چاول کی پیداوار کیلئے ضروری نہیں۔ ہمارے کسان یہ غلطی کرتے ہیں کہ وہ چاول کے کھیت میں ٹیوب ویل چلا کر پانی مسلسل کھڑا رکھتے ہیں جو پیداواری لاگت میں اضافے کے ساتھ ساتھ پانی ضائع کرنے کا سبب بھی بنتا ہے۔
پاکستان میں پانی کی دستیابی دن بہ دن کم ہوتی جا رہی ہے جبکہ ٹیوب ویل کے ذریعے پانی کا حصول ایک مہنگا طریقہ ہے۔ یہاں ضرورت اس بات کی ہے کہ چاول کو کاشت کرنے سے پہلے اس کی پنیری کاشت کرنے کے بجائے چاول کو گندم کی طرح کاشت کیا جائے جسے عام زبان میں چھٹے یا براہ راست کاشت کا طریقہ بھی کہا جاتا ہے۔ یوں کھیت میں مسلسل پانی کھڑا رکھنے کے بجائے صرف وتر کا پانی دیا جاتا ہے جس سے ۱۵ سے ۲۰ فیصد پانی کی بچت ممکن ہے، جو ڈیزل کے اخراجات میں بھی کمی لائے گی۔ پانی کی کمی کے باعث مستقبل میں مختلف فصلوں کی پیداوار کو زبردست خطرہ درپیش ہے اور چاول کی عام طریقہ کاشت میں فصل کا زیادہ دارومدار پانی ہی پر ہے۔ اس لئے یہ ٹیکنولوجی کسی نعمت سے کم نہیں۔
اس سلسلے میں پنجاب ایگری کلچرل ریسرچ بورڈ یعنی پارب نے حال ہی میں چاول کی پنیری اور پانی کھڑا کئے بغیر چاول کی کاشت کی ترویج کا قابل عمل منصوبہ کالا شاہ کاکو میں واقع دھان کے تحقیقاتی ادارہ کے سپرد کیا تھا، جس کا بنیادی مقصد چاول کو بیج سے براہ راست کاشت کرنے کا ایسا طریقہ ایجاد کرنا تھا جس سے پنیری کاشت نہ کرنی پڑے اور بعد میں بھی چاول کی فصل کھیت میں پانی کھڑا کئے بغیر حاصل کی جا سکے۔ اس دو سالہ کامیاب تجربے کی بنیاد پر پیداواری ٹیکنولوجی کیلئے مختلف اہداف وضح کئے گئے تھے۔ ان میں شامل پہلے ہدف کے مطابق زمین کی اچھی تیاری کیلئے مئی کے تیسرے ہفتے میں ۲ مرتبہ خشک ہل چلا کر اورزمین ہموار کرنے کے بعد کھیت کو پانی لگا دیں اور وتر ہونے پر کھیت کو تیار کریں۔ تحقیقات کے مطابق باستمی اقسام میں سپر باستمی، باستمی ۵۱۵، باسمتی ۲۰۰۰، شاہین باسمتی اور باسمتی ۳۸۵ جبکہ موٹی اقسام کیلئے کے ایس کے ۱۳۳، کے ایس کے ۲۸۲ اور اری ۶ موزوں ترین ہیں۔
بیج سے براہ راست کاشت میں جڑی بوٹیوں کی وجہ سے پیداوار میں نقصان کا خطرہ عام کاشت کی نسبت زیادہ ہوتا ہے اور جڑی بوٹیوں کو کنٹرول کرنے کے مواقع بھی محدود ہوتے ہیں، تاہم خشک کھیت میں جڑی بوٹیوں کا کنٹرول کامیاب فصل کی ضمانت ہے۔ مئی کے تیسرے ہفتے میں زمین کو خشک تیار کر کے اچھی طرح ہموار کرنے کے بعد پانی لگایا جاتا ہے۔ اس کے بعد وتر آنے پر ہل اور سہاگہ چلا کر کھیت کو کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے جس سے جڑی بوٹیوں کا اگاؤ شروع ہوجاتا ہے، جبکہ یہی عمل ۲ مرتبہ دہرانے سے کافی تعداد میں جڑی بوٹیاں تلف ہو جائیں گی۔ اس کے علاوہ مناسب جڑی بوٹی مار زہروں کا استعمال بھی موزوں رہتا ہے۔ پانی کا استعمال موسم، زمین کی قسم اور مناسب بندوبست پر انحصار رکھتا ہے، جبکہ براہ راست کاشت میں عام طریقے کی نسبت۵ سے ۶ پانیوں کی بچت ہوسکتی ہے۔ کھادوں کی درست مقدار کا تناسب چاول کی اچھی پیدوار حاصل کرنے کیلئے انتہائی ضروری ہے۔ تحقیقات کے مطابق موٹی اقسام کیلئے ڈھائی بوری یوریا، ڈیڑھ بوری ڈی اے پی اور ایک بوری پوٹاش کا فی ایکٹر، جبکہ باسمتی اقسام کیلئے ۲ بوری یوریا، ڈیڑھ بوری ڈی اے پی اور ایک بوری پوٹاش فی ایکٹر کا استعمال مناسب ہے۔
کسانوں کیلئے زراعت میں آنے والی نئی ٹیکنولوجی کا استعمال دشوار ہوتا ہے، لہٰذا اس مقصد کیلئے مذکورہ منصوبے کے دوران ہی کسانوں کے ساتھ مل کر ۲۰ کامیاب تجربے کئے گئے جن کے نتائج انتہائی حوصلہ افزاء تھے۔ تجرباتی بنیادوں پر پلاٹ کاحجم ایک ایکٹر رکھا گیا جبکہ بیج، کھاد، جڑی بوٹی مار زہر اور تکنیکی راہنمائی تحقیقی منصوبے کے بجٹ سے ادا کی گئی۔ کاشکاروں نے اپنی مدد آپ کے تحت تجربات کئے اور اس پیداواری ٹیکنولوجی کے نتائج کو سراہتے ہوئے امید ظاہر کی کہ آئندہ چند برسوں میں ایک ملین ایکٹر جیسے وسیع رقبے پر دھان کی کاشت ممکن بنائی جاسکے گی۔
تحقیق ہر شعبے بشمول زراعت کیلئے بیحد ضروری ہے۔ کیونکہ دنیا بھر میں آبادی بڑھنے کی وجہ سے خوراک کی قلت ہونا شروع ہوگئی ہے۔ ماہرین کے مطابق بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے زراعت کے شعبے کی طرف توجہ دینا انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ خوراک کی زیادہ پیداوارحاصل کرنے کے لیے ساز گار موسمی حالات اور پانی کی ضرورت بہت اہمیت کی حامل ہے اور ہم جانتے ہیں کہ موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے پیداوار کے لیے موافق حالات کا ملنا اتنا آسان نہیں۔ اس لیے کیوں نہ ایسی اقسام کی تیاری کا حصول ممکن بنایا جائے جو ناموافق حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے پیداوار میں اضافے کا باعث بنے ۔ اس منصوبے کا مقصد بھی کسانوں کا ہر لحاظ سے فائدہ پہنچا کر بہتر پیداوار حاصل کرنا تھا۔
پارب نے قومی سرمایہ کو قیمتی جانتے ہوئے ان منصوبہ جات کی حوصلہ افزائی کی ہے جو زرعی مسائل کے حل میں مددگار ثابت ہوں۔



--

پاکستان: کم پانی سے چاول کاشت کرنے کا نیا طریقہ

سائنس اور ماحول

پاکستان: کم پانی سے چاول کاشت کرنے کا نیا طریقہ

پاکستان میں مون سون کی بارشوں میں تسلسل میں کمی دیکھی جا رہی ہے۔ اِس صورتِ حال میں پاکستان میں چاول کاشت کرنے کی نئی طریقے کا آزمائشی سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔
default
پاکستان میں کم پانی سے چاول کی کاشت کی نئی تکنیک متعارف کروائی گئی ہے۔ اِس کی آزمائشی کاشت کے لیے اکتیس کسانوں نے رضاکارانہ بنیاد پر اپنی خدمت پیش کرنے کی درخواست دی ہے۔ سردست اِس نئی قسم کو 48 ہیکٹرز یا تقریباً 119 ایکڑ زمین پر ٹیسٹ کے طور پر کاشت کرنے کی پلاننگ کی گئی ہے۔ یہ آزمائشی عمل پاکستانی صوبے پنجاب میں شروع کیا گیا ہے۔
جن اکتیس کسانوں نے اِس آزمائشی عمل میں حصہ لیا ہے، اُن میں ایک سردار محمد ہے۔ وہ برسوں سے چاول کاشت کر رہا ہے۔ اُس نے چاول کاشت کرنے کی نئی تکنیک پر عمل کرتے ہوئے اپنا کاشتکاری کا عمل مکمل کیا ہے۔ سردار محمد کے مطابق اِس نئی تکنیک میں چاول کے نئے پودے کی جگہ بیج کو براہ راست بویا گیا ہے۔ چاول کی فصل میں روایتی طور پر پہلے بیجوں کو نرسری میں بویا جاتا ہے اور کھڑے پانی میں بیج سے نکلے ہوئے پودے کو کسان کھیت کے اندر بوتے ہیں۔
سردار محمد کا خیال ہے کہ اِس نئی تکنیک میں چاول کی کاشت میں آبپاشی کے علاوہ محنت بھی خاصی کم لگتی ہے۔ نئی تکنیک میں بیج کو بونے کے بعد مسلسل پانی دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ سردار محمد نے شیخوپورہ میں اپنی 37 ایکڑ زمین پر نئی تکنیک کے ساتھ چاول کی کاشت کے سلسلے میں بیج بویا ہے۔ اِس نئی تکنیک کی مناسبت سے اُس نے بتایا کہ اِس عمل میں چالیس فیصد کم پانی آبپاشی کے دوران استعمال ہوتا ہے اور کم پانی میں زراعت کے نئے طریقوں کو اپنانا اب ضروری ہے۔ محمد کو بھی زیر زمین پانی میں کمی کی فکر لاحق ہے۔ چاول کی نئی تکنیک کو سن 2013 میں ایک اختراعی پروگرام کے دوران متعارف کروایا گیا تھا۔
Pakistan Landwirtschaft Reisanbau
پاکستان اور بھارت میں کم روایتی انداز میں ایک ہی طرح سے چاول کاشت کیا جاتا ہے
پاکستانی کسانوں کے لیے امریکی ادارے یو ایس ایڈ (USAID) نے یہ پروگرام تیس ملین ڈالر کی لاگت سے شروع کیا تھا۔ امریکی ادارے کے پاکستانی مشن کے سربراہ جان گورارکے کے مطابق نئی تکنیک موجودہ کلائمیٹ چینج کے دور میں پاکستانی کسانوں کو مالی من‍‍افع فراہم کرے گی۔ پاکستان زرعی کونسل نے اپنے کھیتوں پر آزمائشی کاشت کے دوران اِس تکنیک سے پچیس فیصد زیادہ پیداوار حاصل کی ہے۔ زرعی فورم پاکستان کے محمد ابراہیم مغل کے مطابق بھی روایتی چاول کاشت کرنے کا عمل محنت طلب ہے اور اس پر بہت زیادہ وقت صرف ہوتا ہے۔
پاکستان میں اندازاً ایک کلوگرام چاول حاصل کرنے کے لیے ایک ہزار لٹر پارنی درکار ہوتا ہے۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں چاول کو بنیادی خوراک کا درجہ حاصل ہے۔ پاکستان میں گندم کے ساتھ ساتھ عام لوگ چاول بھی بڑی رغبت سے کھاتے ہیں۔ اب پاکستانی دریاؤں میں پانی کی کمی کا احساس بھی پایا جاتا ہے۔ حکومت بھی پانی کے ذخائر کے حوالے سے عوامی دباؤ محسوس کرتی ہے۔

Doechay Wellay

چاول کی فصل فضائی آلودگی کم کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے، تحقیق

چاول کی فصل فضائی آلودگی کم کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے، تحقیق

ویب ڈیسک  بدھ 3 اگست 2016
چاول کی فصل میں نائٹروجن جذب کرنے کی زبردست صلاحیت ہوتی ہے جو ماحول کو فائدہ پہنچاتی ہے، ماہرین، فوٹو؛ فائل
چاول کی فصل میں نائٹروجن جذب کرنے کی زبردست صلاحیت ہوتی ہے جو ماحول کو فائدہ پہنچاتی ہے، ماہرین، فوٹو؛ فائل
کینیڈا: یونیورسٹی آف ٹورانٹو، اسکاربرو اور چائنیز اکیڈمی آف سائنسز کے سائنسدانوں کی مشترکہ ٹیم نے دریافت کیا ہے کہ چاول کی فصل میں نائٹروجن جذب کرنے کی زبردست صلاحیت ہوتی ہے جو نہ صرف ماحول کو فائدہ پہنچاتی ہے بلکہ کسانوں کے اخراجات بھی بچاتی ہے۔
مصنوعی کھاد میں نائٹروجن کا استعمال بکثرت کیا جاتا ہے لیکن اسی نائٹروجن کی زیادتی ماحول کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہوتی ہے کیونکہ فصلیں اس نائٹروجن کو پوری طرح استعمال نہیں کرپاتے۔ نتیجتاً یہ اضافی نائٹروجن ہوا اور مٹی میں شامل ہوکر آلودگی میں اضافہ کرتی ہے اور ماحولیاتی مسائل کو پیچیدہ تر کرتی ہے۔ مثلاً وہ ممالک جہاں چاولوں کی کاشت بہت زیادہ کی جاتی ہے، وہاں کھاد میں شامل 50 سے 70 فیصد تک نائٹروجن ضائع ہوجاتی ہے اور (اپنی اسی حالت میں یا امونیا کی شکل میں) آس پاس موجود تالابوں اور زیرِ زمین آبی ذخائر میں حل ہوکر انہیں زہریلا کرتی ہے۔
اس مطالعے کے دوران ماہرین نے چاول کی 19 اقسام کا جائزہ لیا اور ان میں سے بیشتر کو نائٹروجن جذب کرنے کے معاملے میں بہت مؤثر پایا۔ ان ہی خصوصیات کی بناء پر ماہرین نے چاول کو ’’سپر اسٹار فصل‘‘ بھی قرار دیا ہے۔ مطالعے کے مطابق چاول کو فروغ دے کر کھاد کے اخراجات اور بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی دونوں کا بہ یک وقت ازالہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ امکان بھی موجود ہے کہ چاول کی وہ اقسام جو نائٹروجن کو بہترین انداز میں جذب کرتی ہیں ان میں متعلقہ جین شناخت کیے جائیں اور انہیں دوسری فصلوں میں پیوند کرکے https://www.express.pk/story/572183/ایسی نئی فصلیں تیار کرلی جائیں جنہیں کھاد کی کم سے کم ضرورت پڑے۔

چاول کی فصل فضائی آلودگی کم کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے، تحقیق