پاکستانی طلبا نے چاول کی کوالٹی جانچنے والا جدید سافٹ ویئر تیار کرلیا
کراچی: پاکستانی طلبا نے چاول کا معیار جانچنے کے لیے پاکستان کا پہلا آرٹیفیشل انٹیلی جنس سافٹ ویئر تیار کرلیا۔
پاکستان چاول پیدا کرنے والا دنیا کا دسواں بڑا ملک ہے اور چاول کی فصل غذائی ضروررت پوری کرنے کے ساتھ برآمدات کے ذریعے زرمبادلہ کے حصول کا بھی اہم ذریعہ ہے۔ چاول کی قیمت کا تعین اس کی درجہ بندی اور معیار کی بنیاد پر کیاجاتا ہے۔
چاول کے معیار کا درست تعین چاول کی بہترین قیمت کے حصول کا اہم ذریعہ ہے۔ پاکستان میں اب تک چاول کے معیار کا تعین اور درجہ بندی روایتی مینوئل طریقوں سے کی جاتی رہی جو ایک وقت طلب اور مشکل کام ہے لیکن پاکستان کے باصلاحیت نوجوانوں نے چاول کے کاشتکاروں، ملرز، ٹریڈرز اور ایکسپورٹرز کی یہ مشکل جدید کمپوٹر ٹیکنالوجی کے ذریعے آسان بنادی ہے۔
این ای ڈی یونیورسٹی میں قائم قومی مرکز برائے مصنوعی ذہانت کے اساتذہ اور طلباء نے پاکستان کا پہلا آرٹیفیشل انٹلی جنس کمپیوٹر سافٹ ویئر تیار کرلیا ہے جو چاول کے دانوں کا سیکنڈوں میں مشین لرننگ کے ذریعے تجزیہ کرکے اس کے معیار کا تعین کرتا ہے۔
سافٹ ویئر کو رائس کوالٹی اینالائرز کا نام دیا گیا ہے جو ایک منٹ میں چاول کے دانوں کا تجزیہ کرکے چاول کی لمبائی، موٹائی، ٹوٹے ہوئے دانوں کا تناسب، اوسط وزن اور دیگر اہم خصوصیات کا تجزیہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس سافٹ ویئر نے اب تک کی آزمائش میں 99فیصد نتائج دیے ہیں۔پاکستانی سافٹ ویئر کا موازنہ جاپان کے جدید سافٹ ویئر سے بھی کیا گیا اور پاکستان میں تیار کیے گئے سافٹ ویئر کے نتائج کو جاپانی سافٹ ویئر کے ہم پلہ پایا گیا۔
سافٹ ویئر تیار کرنے والی ٹیم کے رکن اورنیشنل سینٹر فار آرٹیفشل انٹلی جنس کے ریسرچ ایسوسی ایٹ حافظ احسن الرحمان کے مطابق چاول کے معیار کا تعین اور درجہ بندی کے لیے مصنوعی ذہانت کا استعمال پاکستان کی رائس انڈسٹری کی ترقی میں ایک سنگ میل ہے۔
چاول کے معیار کے تعین کے روایتی دستی طریقے میں 2.5ٹن چاول کی لاٹ میں سے 8کلو گرام چاول کے نمونے جمع کیے جاتے ہیں جن میں سے مزید نمونے منتخب کرکے انسانی آنکھ،تجربہ اور مینوئل آلات کی مدد سے چاول کے نمونوں کا جائزہ لیا جاتا ہے ایک نمونے کی جانچ میں کم سے کم ایک گھنٹہ لگتا ہے اور ہر نمونے کی جانچ پر ہزاروں روپے کے چارجز لگتے ہیں۔
پاکستان میں چاول کی مقامی طلب اور ایکسپورٹ کے حجم میں اضافہ کے لحاظ سے کمپیوٹر سافٹ ویئر کی مدد سے چاول کی جانچ کی ضرورت عرصہ سے محسوس کی جارہی تھی تاکہ کم سے کم وقت اور لاگت سے زیادہ سے زیادہ نمونوں کی جانچ کی جاسکے۔ مقامی سطح پر اس جدید سافٹ ویئر کی تیاری سے چاول کی درجہ بندی کی لاگت کم اور جانچ کی صلاحیت میں اضافہ ہوگا اور ایکسپورٹ کے آرڈرز کم سے کم وقت میں مکمل ہوسکیں گے۔ سافٹ ویئر کی تیاری میں پاکستان میں چاول کی جانچ کے لیے خدمات فراہم کرنے والے نجی ادارے رائس لیب پاکستان نے تکنیکی تعاون فراہم کیا ہے۔
چاول کے تجزیے کا سافٹ ویئر کسی بھی اچھے معیار کے فلیٹ بیٹ اسکینر سے اسکین کردہ چاول کے دانوں کی تصاویر سے کیا جاتا ہے۔ چاول کے معیار کی جانچ کروانے والے ٹریڈرز یا ملرز دفتری استعمال کے اچھے معیار کے اسکینر سے چاول کے دانے اسکین کرکے اسمارٹ سٹی لیب کی ٹیم کو ارسال کرسکتے ہیں جس کا فوری تجزیہ کرکے نتائج بذریعہ ای میل فراہم کیے جاتے ہیں۔اسمارٹ سٹی لیب ملک میں اس تجزیہ کے جدید طریقے کو عام کرنے کے لیے فی الوقت جانچ کی سہولت آزمائشی بنیادوں پر مفت فراہم کررہی ہے۔
حافظ احسن الرحمان کے مطابق اس وقت یہ سافٹ ویئر چاول کی 7اہم خصوصیات کا تجزیہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اگلے مرحلے میں چاو ل کی رنگت، پیلاہٹ، سرخ نشانات وغیرہ کا بھی تجزیہ اور نشاندہی کی صلاحیت شامل کی جائے گی۔ انہوں نے بتایا کہ چاول کے معیار کا تجزیہ کرنیو الے امریکی کمپنی کے تیار کردہ خودکار اسکینر اور سافٹ ویئر کی قیمت پاکستانی 6لاکھ روپے ہے جس کی مدت ایک سال ہے۔
این ای ڈی یونیورسٹی کے سینٹر فار آرٹی فیشل انٹلی جنس کا تیار کردہ سافٹ ویئر اس کے مقابلے میں کہیں زیادہ سستا اور کارگر ہے اور پاکستان کے حالات اور رائس انڈسٹری کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔
سافٹ ویئر تیار کرنے والی ٹیم اس سافٹ ویئر کی سہولت دو طرح سے فراہم کرنے پر غور کررہی ہے پہلے طریقے میں ٹریڈرز، ایکسپورٹرز یا ملرز کی ارسال کردہ چاول کے دانوں کی تصاویر کی بنیاد پر تجزیہ کرکے نتائج مہیا کیے جائیں گے۔ دوسری صورت میں سافٹ ویئر کے استعمال کے حقوق کسی مخصوص مدت کے لیے فروخت کیے جائیں گے۔
پاکستانی سافٹ ویئر کی سوشل میڈیا کے ذریعے تشہیر شروع کردی گئی ہے جس میں پاکستانی رائس کمپنیوں کے علاوہ، انڈونیشیا، انڈیا، سری لنکا اور دیگر ممالک کی رائس انڈسٹری سے بھی بھرپور رسپانس موصول ہورہا ہے۔
اس کے علاوہ اس نظام کی مدد سے چاول کے معیارکی بنیاد پر چاول کی پیداوار والے اچھے علاقوں کی نشاندہی ہوسکتی ہے اور مقامی و بین الاقوامی مارکیٹ میں چاول کے کاشتکاروں کی محنت کا بہترین معاوضہ حاصل کیا جاسکتا ہے
No comments:
Post a Comment