Saturday, February 17, 2018

دھان کی براہ راست کاشت


دھان کی براہ راست کاشت


تحریر: مریم نصیر


پاکستان میں چاول گندم کے بعد دوسری بڑی فصل ہے، جبکہ پاکستان سالانہ ۶۴ لاکھ ٹن چاول کی پیداوار کے لحاظ سے دنیا کا دسواں بڑا ملک ہے۔ پانی زراعت کا سب سے اہم عنصر ہے اور پاکستان میں چاول کی کاشت پر آنے والی بڑی لاگت پانی کی ہے جو کسانوں پر سب سے بڑا بوجھ ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ رب کائنات نے چاول کو ایک خاص صلاحیت دی ہے کہ یہ کھڑے پانی میں بھی اگ سکتا ہے، لیکن پانی کا کھڑا رہنا چاول کی پیداوار کیلئے ضروری نہیں۔ ہمارے کسان یہ غلطی کرتے ہیں کہ وہ چاول کے کھیت میں ٹیوب ویل چلا کر پانی مسلسل کھڑا رکھتے ہیں جو پیداواری لاگت میں اضافے کے ساتھ ساتھ پانی ضائع کرنے کا سبب بھی بنتا ہے۔
پاکستان میں پانی کی دستیابی دن بہ دن کم ہوتی جا رہی ہے جبکہ ٹیوب ویل کے ذریعے پانی کا حصول ایک مہنگا طریقہ ہے۔ یہاں ضرورت اس بات کی ہے کہ چاول کو کاشت کرنے سے پہلے اس کی پنیری کاشت کرنے کے بجائے چاول کو گندم کی طرح کاشت کیا جائے جسے عام زبان میں چھٹے یا براہ راست کاشت کا طریقہ بھی کہا جاتا ہے۔ یوں کھیت میں مسلسل پانی کھڑا رکھنے کے بجائے صرف وتر کا پانی دیا جاتا ہے جس سے ۱۵ سے ۲۰ فیصد پانی کی بچت ممکن ہے، جو ڈیزل کے اخراجات میں بھی کمی لائے گی۔ پانی کی کمی کے باعث مستقبل میں مختلف فصلوں کی پیداوار کو زبردست خطرہ درپیش ہے اور چاول کی عام طریقہ کاشت میں فصل کا زیادہ دارومدار پانی ہی پر ہے۔ اس لئے یہ ٹیکنولوجی کسی نعمت سے کم نہیں۔
اس سلسلے میں پنجاب ایگری کلچرل ریسرچ بورڈ یعنی پارب نے حال ہی میں چاول کی پنیری اور پانی کھڑا کئے بغیر چاول کی کاشت کی ترویج کا قابل عمل منصوبہ کالا شاہ کاکو میں واقع دھان کے تحقیقاتی ادارہ کے سپرد کیا تھا، جس کا بنیادی مقصد چاول کو بیج سے براہ راست کاشت کرنے کا ایسا طریقہ ایجاد کرنا تھا جس سے پنیری کاشت نہ کرنی پڑے اور بعد میں بھی چاول کی فصل کھیت میں پانی کھڑا کئے بغیر حاصل کی جا سکے۔ اس دو سالہ کامیاب تجربے کی بنیاد پر پیداواری ٹیکنولوجی کیلئے مختلف اہداف وضح کئے گئے تھے۔ ان میں شامل پہلے ہدف کے مطابق زمین کی اچھی تیاری کیلئے مئی کے تیسرے ہفتے میں ۲ مرتبہ خشک ہل چلا کر اورزمین ہموار کرنے کے بعد کھیت کو پانی لگا دیں اور وتر ہونے پر کھیت کو تیار کریں۔ تحقیقات کے مطابق باستمی اقسام میں سپر باستمی، باستمی ۵۱۵، باسمتی ۲۰۰۰، شاہین باسمتی اور باسمتی ۳۸۵ جبکہ موٹی اقسام کیلئے کے ایس کے ۱۳۳، کے ایس کے ۲۸۲ اور اری ۶ موزوں ترین ہیں۔
بیج سے براہ راست کاشت میں جڑی بوٹیوں کی وجہ سے پیداوار میں نقصان کا خطرہ عام کاشت کی نسبت زیادہ ہوتا ہے اور جڑی بوٹیوں کو کنٹرول کرنے کے مواقع بھی محدود ہوتے ہیں، تاہم خشک کھیت میں جڑی بوٹیوں کا کنٹرول کامیاب فصل کی ضمانت ہے۔ مئی کے تیسرے ہفتے میں زمین کو خشک تیار کر کے اچھی طرح ہموار کرنے کے بعد پانی لگایا جاتا ہے۔ اس کے بعد وتر آنے پر ہل اور سہاگہ چلا کر کھیت کو کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے جس سے جڑی بوٹیوں کا اگاؤ شروع ہوجاتا ہے، جبکہ یہی عمل ۲ مرتبہ دہرانے سے کافی تعداد میں جڑی بوٹیاں تلف ہو جائیں گی۔ اس کے علاوہ مناسب جڑی بوٹی مار زہروں کا استعمال بھی موزوں رہتا ہے۔ پانی کا استعمال موسم، زمین کی قسم اور مناسب بندوبست پر انحصار رکھتا ہے، جبکہ براہ راست کاشت میں عام طریقے کی نسبت۵ سے ۶ پانیوں کی بچت ہوسکتی ہے۔ کھادوں کی درست مقدار کا تناسب چاول کی اچھی پیدوار حاصل کرنے کیلئے انتہائی ضروری ہے۔ تحقیقات کے مطابق موٹی اقسام کیلئے ڈھائی بوری یوریا، ڈیڑھ بوری ڈی اے پی اور ایک بوری پوٹاش کا فی ایکٹر، جبکہ باسمتی اقسام کیلئے ۲ بوری یوریا، ڈیڑھ بوری ڈی اے پی اور ایک بوری پوٹاش فی ایکٹر کا استعمال مناسب ہے۔
کسانوں کیلئے زراعت میں آنے والی نئی ٹیکنولوجی کا استعمال دشوار ہوتا ہے، لہٰذا اس مقصد کیلئے مذکورہ منصوبے کے دوران ہی کسانوں کے ساتھ مل کر ۲۰ کامیاب تجربے کئے گئے جن کے نتائج انتہائی حوصلہ افزاء تھے۔ تجرباتی بنیادوں پر پلاٹ کاحجم ایک ایکٹر رکھا گیا جبکہ بیج، کھاد، جڑی بوٹی مار زہر اور تکنیکی راہنمائی تحقیقی منصوبے کے بجٹ سے ادا کی گئی۔ کاشکاروں نے اپنی مدد آپ کے تحت تجربات کئے اور اس پیداواری ٹیکنولوجی کے نتائج کو سراہتے ہوئے امید ظاہر کی کہ آئندہ چند برسوں میں ایک ملین ایکٹر جیسے وسیع رقبے پر دھان کی کاشت ممکن بنائی جاسکے گی۔
تحقیق ہر شعبے بشمول زراعت کیلئے بیحد ضروری ہے۔ کیونکہ دنیا بھر میں آبادی بڑھنے کی وجہ سے خوراک کی قلت ہونا شروع ہوگئی ہے۔ ماہرین کے مطابق بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے زراعت کے شعبے کی طرف توجہ دینا انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ خوراک کی زیادہ پیداوارحاصل کرنے کے لیے ساز گار موسمی حالات اور پانی کی ضرورت بہت اہمیت کی حامل ہے اور ہم جانتے ہیں کہ موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے پیداوار کے لیے موافق حالات کا ملنا اتنا آسان نہیں۔ اس لیے کیوں نہ ایسی اقسام کی تیاری کا حصول ممکن بنایا جائے جو ناموافق حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے پیداوار میں اضافے کا باعث بنے ۔ اس منصوبے کا مقصد بھی کسانوں کا ہر لحاظ سے فائدہ پہنچا کر بہتر پیداوار حاصل کرنا تھا۔
پارب نے قومی سرمایہ کو قیمتی جانتے ہوئے ان منصوبہ جات کی حوصلہ افزائی کی ہے جو زرعی مسائل کے حل میں مددگار ثابت ہوں۔



--

No comments:

Post a Comment