چین میں پاکستانی مصنوعات کی برآمد کے
وسیع مواقع
ترجمہ وتلخیص:مجاہد علی
mujahid.riceplus@gmail.com
0321 3692874
حکومت
پاکستان کوچاہئے کہ وہ بیجنگ میں کمرشل اتاشی کے قیام کو فوراعمل میں لائے۔
چائنہ اورپاکستان کے درمیان تجارت کے وسیع مواقع
موجود ہیں چین پاکستانی پراڈکٹ کی درآمدکے حوالے سے دوسرابڑامُلک ہے
جسکا مارکیٹ شئیر ۷ فیصدہے۔جبکہ امریکہ کاکل ایکسپورٹ کا سولہ اشاریہ سات فیصد حصہ
ہے۔چائنہ امپورٹ کے حوالے سے بھی دوسرابڑاذریعہ ہے۔.آزدانہ تجارتی معاہدے (ایف ٹی اے) کی وجہ سے چین کی طرف ایکسپورٹ کے حوال سے
اضافہ ہواہے۔اس آزادنہ تجارت کی وجہ سے ۱۹ فیصدسےبڑھ کر۲۶ فیصد تک جاپہنچی ہے
چائنہ کی حکومت نے پاکستان کے ساتھ تجارت
کوبڑھانے میں گہری دلچسپی کااظہارکیا ہے۔
یہ توقع کی جاتی ہے کہ پاکستان سے مذیداشیاء کی درآمد کی جائے گی ۔چائنہ
پاکستان سے سبزیاں اورپھل درآمد کرسکتاہے ۔پاکستان مشینری کودرآمدکرتاہے لیکن
پھربھی صنعتی ڈھانچہ کوبہتربنانے کی ضرورت ہے تاکہ کم قیمت
پرپروڈکشن ہوسکے۔چائنہ میں پاکستانی آم ،آلو گندم چاول اورترش پھلوں وبیری کی ایک
وسیع طلب ہےدونوں ممالک جینیاتی چاول کی بڑھوتری کے لئے بھی کام کررہے ہیں۔
چائنہ میں پاکستانیوں کے لئے زرعی شعبہ میں خاص
مواقع موجود ہیں ہیں جیساک چائنہ کو زمین کی
سیرابی جیسے مسائل کاسامنابھی درپیش ہے۔ پانی کی کمی بڑھ رہی ہے۔کچھ فصلوں کے
حوالے سے حالات بہت گھمبیربھی ہیں ۔چائنہ اپنی زرعی ضروریات کوپوراکرنے کے لئے
ایشائی ممالک جیسا کہ پاکستان ،انڈیا،تھائی
لینڈ اورویت نام کوترجیح دیتاہے۔تھائی لینڈاورچائنہ کے مابین ٹیرٖف کی وجہ سے
تجارت مشکل دکھائی دیتی ہے۔
مشیرکامرس اینڈ ٹریڈ عبدل رزاق داود چین کے ساتھ تجارت
کے وسیع امکانات ومواقع کو دیکھ رہے ہیں۔وہ اس بات کومحسوس کرتے ہیں کہ
مستقبل میں کن مصنوعات کی تجارت میں اضافہ ہوسکتاہے ۔جس سے چائنہ اورپاکستان کے
جغرافیائی تعلقات مذیدبہترہوں گے ۔چینی
جیسی جنس کی تجارت رزاق داوکے لئے پہلی ترجیح ہے
پاکستان اورچین کے مابین تجارت کے مواقع
کادوسراعنصر معدنیات اورقیمتی پتھربھی ہے ۔پاکستان چائنہ کے مابین اقتصادی راہداری
معاہدہ کے تحت ٹیرف کی شرح ۳۵ فیصدسے ہوکرصفرتک آگئی ہے۔اب چائنہ کی انجینئرز کی
توجہ ریکوڈیک سے دریافت ہوئے سونے اورچاندی کے ذخائرپرمرکوزہوچکی ہے۔
چائنہ نے اقتصادی راہداری کے تحت زرعی اورہارٹی
کلچرکی شعبہ میں تیارکردہ اشیاء کے ی درآمد کرنے میں دلچسپی کا اظہارکیا ہے
تجارتی رکاوٹیں اورفوائد
رزاق داودنے اس اس خیال کااظہارکیاہے کہ پاکستان
چین کے ساتھ تجارت بڑھانے کے لئے اپنی کوششیں جاری رکھےگا۔لیکن ان رکاوٹوں
کوعبورکرنے میں کچھ رکاوٹیں بھی حائل درپیش ہیں ۔.پاکستان ذیادہ ترایکسپورٹ یورپ اورامریکہ کوایکسپورٹ کرتاہے ہیں
لیکن چائنہ پاکستان کا سب سے بڑابرآمدی اشیاء کامرکزہے ۔پاکستان چائنہ کوذیادہ
ترخام مال برآمدکرتاہے۔پاکستان چائنہ کو تقریبا ۶۶ فیصد خام کاٹن اورکرومیم کی شکل
میں برآمد کرتاہے۔یہ تناسب اورشرح کافی
عرصے سے تبدیل بھی نہیں ہوئی ہے۔
پاکستان کودوسری اقوام کی بنسبت چائنہ کے ساتھ
تجارت کرنے میں نمایاں فوائد ٓحاصل ہیں ۔یہ پاکستانی پراڈکٹ کی ترقی کے لئے مواقع
فراہم کرتاہے۔
چائنہ
کے ساتھ ایف ٹی اے معاہدہ کے تحت پاکستان کو دوسرے ممالک پر فوقیت حاصل ہے کہ وہ
ذیادہ منافع والی مصنوعات جیسا کہ ٹیکسٹائل اورکھیلوں کے سامان کو ایکسپورٹ کرسکتاہے۔ لیکن نان ٹیرف مشکلات کی
وجہ سے وسیع مارکیٹ سے بھرپورفائدہ اٹھانے سے محروم ہے۔
چین میں پاکستانی مصنوعات کوبرآمدکرنے کے حوالے
سے وسیع مواقع موجودہیں لیکن پاکستانی
برآمد کنندگان نان ٹیرف مشکلات کی وجہ سےپیش قدمی نہ کرسکے۔ ورلڈٹریڈ
آرگنائزیشن(ڈبلیو ٹی او) نے اس حوالے سے حائل رکاوٹوں کی نشاندہی کی ہے جن میں بہت
ذیادہ وقت کاضیاع اورصرف ہونا ، اعلی لاگت اعلی لاگت نوکرشاہی کے کاطریقہ کار،تجارتی
عدلیہ ،شفافیت کی کمی، غیرمعیاری ٹینڈرکاہونا
مذیدبرآں دونوں ملکوں کے مابین رابطے
کافقدان ہے جیسا مزید برآں پاکستان کے
دیگر تجارتی شراکت داروں کے ساتھ تعلق کے
برعکس دونوں ممالک کے درمیان رابطے کافقدان ہے موجود ہے ۔ یہ معاملات دونوں ممالک
کے تاجروں کے درمیان ہچکچاہٹ کاباعث بنتے ہیں ۔ جس کی وجہ سے وہ ایک دوسرے کی
توقعات کوسمجھ نہیں پاتے جس سے اعتمادکی کمی واقع ہوجاتی ہے ۔
جب ایک معاہدہ ختم ہوجاتاہے یا
پھرکوئی ناخوشگوارتجربہ رُونما واقع ہوجاتاہے توپارٹی کے لئے دوبارہ سے اعتماد کرنا مشکل ہوجا تاہے ۔
چائنہ تجارتی مواقع کے حوالے سے
بہت بڑی مارکیٹ ہے بعض اوقات یہ دیکھا گیا ہے کہ پاکستان کی جانب سے ناکافی رسد کی
فراہمی ایک مسلہ ہے۔
چائنہ کے ہاں درآمدی اشیاء کی بہت
ذیادہ طلب ہے اسکی وجہ وہاں لیبرمارکیٹ کی کمی ہے۔ پیداواری لاگت کی وجہ سے
بیرونی کاروباری حلیفوں سے مقابلہ کرنا
مشکل ہوجاتاہے۔دوسری طرف مارکیٹنگ کابھی مسلہ ہے۔پاکستان کوچاہئے کہ اقتصادی
راہداری پراجیکٹ میں تجارتی مواقعوں کی نشاندہی کی جائےاوراس میں تجارتی مواقع کو
اجاگر کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ دونوں ممالک کے بہت سارے تاجر اس کے بارے میں کافی
حد تک نہیں جانتے ہیں
متعدد اطلاعات ہیں کہ پاکستانی تاجروں کو ان کی مصنوعات کے
حوالے گہری چھان بین سے تکلیف کا سامنا ہے
۔ جس کی وجہ سے بعض اوقات ان کی پراڈکٹ خراب ہوجاتی ہیں۔ یہ محض اس وجہ سے ہے کہ پاکستانی
چائنہ میں پاکستانی پراڈکٹ کی کوئی وقعت نہیں ہے۔
کچھ مثبت تجاویز
پاکستان کواس بات کی اشدضرورت ہے
کہ وہ اب خام مال ایکسپورٹ کرنے کی عادت ترک کردے اور عام سادہ پراڈکٹ کی بجائے ویلیوایڈڈ پراڈکٹ کی تیاری کرے ، اس سے لیبرمارکیٹ
کوبھی فائدہ ہوگا ۔ جس سے ملکی ترقی ہوگی اورمارکیٹ کا حجم بھی بڑھ سکتاہے ۔
پاکستان کومشورہ دیاجاتاہے کہ چائنہ
میں سفارت سے ہٹ کرایک کمرشل قونصلیٹ کی تشکیل کرے ۔ یہ چائننر کی مانگ اورپسند
ناپسند کوسمجھنے میں مددگار ثابت ہوگا ۔یہ سب کچھ اداروں کی جانب سے تحقیق
پرمشتمل ہوگا۔اورپاکستانی ہم منصبوں کے ساتھ چینی تاجروں کو مربوط کریں گے۔یہ بھی
تجویزکیاجاتاہے کہ ٹریڈاتھارٹی آف پاکستان (ٹی ڈیپ) پاکستانی
مصنوعات کی برانڈنگ کوبہترکرنے
اورپراڈکٹ کی مارکیٹنگ کوبہتربنانے کے لئے کچھ رقم مختص کرے ۔
امید کی جاتی ہے کہ حکومت پاکستان
تاجروں کو موثر خریداری اور تقسیم کار کے نیٹ ورک بنانے میں مدد کرے گی۔تاکہ
پاکستانی مصنوعات کے معیارکوچائنہ کے صارف کی پسندناپسند کی بناپربہترکیاجاسکے۔
اصل آرٹیکل
چائنہ اکانومسٹ نیٹ پرشائع ہوا بعدمیں ایکسپریس ٹرائی بیون میں ۲۰ جولائی ۲۰۲۰ میں شائع ہوا۔مذید سیاق وسباق
کے لئے درج ذیل لنک کوکلک کریں !
https://tribune.com.pk/story/2255670/potential-of-boosting-pakistans-exports
No comments:
Post a Comment